بین المسلمین اتحاد
وقت کی ضرورت
تحریر : علی مدد
1۔ قرآن پاک جو اللہ پاک کا سب سے بڑا معجزہ ہے ، اہل ایمان سے یوں مخاطب ہے :-
” اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو ، آپس میں تفرقے میں مت پڑو۔۔۔ (سورہ آل عمران 103.)
تفرقہ یا فرقہ پرستی ایک ایسی وبا ہے جو نہ صرف معاشرے میں فساد و خون خرابے کا باعث بنتی ہے، بلکہ اسکی موجودگی میں مسلمان جو حدیث پاک کے مطابق ایک بدن کی مانند ہوتا ہے، آہستہ آہستہ اندر سے گھل جاتا ہے۔ اس کے اندر موجود قوت مدافعت Immune system ، جس کا کام جسم پر حملہ آوار بیرونی قوتوں / جراثیم / وائیرس وغیرہ کے خلاف لڑ کر انھیں دور بھگانا ہوتا ہے ، فرقہ واریت کے ناسور کی وجہ سے Antibodies کی مانند خود اپنے قوت مدافعتی نظام Immune System کے خلاف برسر پیکار رہتا ہے جسے میڈیکل سائنس کی زبان میں Autoimmune Disorder کہتے ہیں۔
نتیجتا جسم بیرونی حملہ آوروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے ، یوں دشمن ہمارے پورے جسم / ریسورسز پر قبضہ کرتا ہے اور ایک دن ہمیں سسک سسک کر مار بھی ڈال دیتا ہے۔ اگر بچ بھی جاتے ہیں تو جسم اس سا قابل نہیں ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام بھی دے سکے۔ بلکل یہی حالت آج مسلم امہ کی ہے۔
فرقہ واریت کی اس سنگینی کو بھانپتے ہوئے رب العزت اور اس کے محبوب نے باربار قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو فرقہ واریت کی زہریلی وبا اور اس کی تباہ کاریوں سے آگاہ اور بچنے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
” اور خبردار ، ان لوگوں کی طرف نہ ہوجاو، جنھوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیاں آنے کے باوجود اختلاف کیا۔ ان کیلے سخت عزاب ہے۔”
( آل عمران-105)
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ زور دے کر فرماتے ہیں :-
” بیشک جن لوگوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کردیا ، آپس میں دھڑوں میں بٹ گئے ،( اے محبوب ) آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ” ( سورہ الانعام - 159)
مندرجہ بالا دو آیت کی روشنی میں اگر ہم امت کے اندر موجود تفرقہ بازی اور امت کی زبوں حالی کا باریکی سے جائیزہ لیے تو صاف پتہ چل جاتا ہے ، کہ مسلمان آج کہاں کھڑے ہیں؟ سورہ آل عمران کے مطابق جس کا اوپر زکر آچکا ہے ، کہیں ہم سب کرونا کی شکل میں عزاب ایلہی کا شکار تو نہیں ہوئے ہیں؟
آپ پوچھ سکتے ہیں ، پھر غیر مسلم کا کیا قصور ؟ وہ کرونا کا شکار کیوں ہیں ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے ، قرآن کا پیغام صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے اور نہ رحمت اللعالمین صرف مسلمانوں کا نبی اور رباالعالمین صرف مسلمانوں کا ہی پالنہار ہے ۔ وہ تو قرآن کے مطابق انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات، چرند پرند تمام مخلوقات کے مالک اور نبی سب کا امام ہیں۔
قرآن کی دوسری آیت کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت اور واضح ہے۔ یعنی ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب نے صاف و بلند الفاظ میں فرماتے ہیں:-
اے محبوب یہ مسلک و مذہب کی بنیاد پر آپس میں لڑنے / گلے کاٹنے والے ، ایک دوسروں کے خلاف نفرت و عداوت کی دیواریں کھڑی کرنے والوں کا آپ سے کوئی تعلق / لینا دینا نہیں ہے ۔ اللہ اکبر
ان کو اپنے نفس کے رحم و کرم پر رہنے دو ، پھر وہ اوندھے منہ بروز حشر کھنچ کر مالک یوم الدین کے روبرو پیش کر دئے جائیں گے اور ان کا سخت محاسبہ و حساب کتاب کیا جائے گا۔
2. خلفائے راشدین میں باہمی رواداری
اور ہمارے لیے بہترین مثال ۔
قرآن و حدیث میں تو فرقہ واریت کی شدید مزمت اور باہمی رواداری و اتحاد کے حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں، جن میں سے چند ایک کا مختصراً اوپر زکر آچکا ہے۔ کیا ہمارے پاس کوئی اور سورس بھی موجود ہیں جن سے ہم سیکھ سکتے ہیں آیا ایک مہذب معاشرے میں باہمی اختلافات کے باوجود کیسے امن وآشتی ، احترام انسانیت اور باہمی رواداری کے ساتھ جیا جاسکتا ہے۔
اختلاف خواں سیاسی، مزہبی، معاشی، قانونی ہو یا اور کوئی نوعیت کا، مثبت اختلاف ایک جاندار معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اختلاف نہ ہونا ایک جمود ، ظلم و جبر کا شکار معاشرے کی نشاندہی کرتا ہے۔
پوری انسانی تاریخ بشمول اسلامی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں،۔ مہذب ، عدل و انصاف پر مبنی نظام میں مثبت اختلاف رائے کی ہمشہ قدر کی جاتی ہے، صرف ظالم و آمرانہ طرز حکومت میں مثبت اختلاف رائے کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔
آئیں ہم آپ کو بتادیتے ہیں وہ تیسرا سورس کیا ہے؟ جو ہمیں اختلافات کے باوجود اکھٹے مل بیٹھ کر ، ایک دوسرے سے سیکھ کر / بیرونی سازشوں کے خلاف تقویت پہنچا کر زندگی گزانے کی درس دیتا ہے، وہ ہے خلفائے راشدین کی باہمی رواداری و محبت۔
خلفائے راشدین کی زندگی اس سلسلے میں سب سے بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ مختلف موضوعات حتی کہ معتبر روایات / کتب کے مطابق، حق خلافت جیسے حساس امور پر باہمی اختلاف رکھنے کے باوجود اللہ کے ان مقرب ہستیوں نے جس طرح ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سنا، سمجھا ، برداشت کیا ، نبی کریم کے دین کو سب مل کر مضبوط کیا، دل ان پر بے ساختہ سلام بھجے بغیر رہ نہیں سکتا ہے۔
اختلاف کے باوجود مولائے کائنات حضرت علی کا شیخین کے ساتھ تقریبا 25 سال بطور وزیر / قاضی گزارے۔ احکام ایلہی، دینی، سیاسی، جنگی و عدالتی امور میں میں خلیفہ وقت کی وقتاً فوقتاً رہنمائی کرتے ریے۔ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق کو بے ساختہ کہنا پڑا :-
“عمر ہلاک ہوجاتا اگر ابوالحسن / علی نہ ہوتے”۔
درجنوں اور مثالیں موجود ہیں ، سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح ایرانیوں کے ساتھ جنگ سے پہلے خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق نے حضرت علی سے مشورہ لیا تو امام عالی مقام نے خلیفہ وقت کو نہ صرف درست مشورہ دیا بلکہ حضرت عمر رضی کو خود پیچھے رہنے اور میدان جنگ نہ جانے کا مشورہ دیا۔ خدا نخواستہ خلیفہ وقت خود میدان میں اترتے ہیں اور ان کو کچھ ہوجاتا ہے تو نہ صرف مسلمانوں کو خلیفہ وقت کا صدمہ برداشت کرنا مشکل پڑے گا بلکہ اہل ایمان کی نفسیات پر بھی اس نقصان کا بہت برا اثر پڑتا اور یوں جنگ کا پانسہ بھی پلٹ سکتا تھا۔
تینوں خلفائے حق کو نبی کریم کے مقدس فرامین یاد تھے :-
- ” علی تم میں سے سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں”
- “علی حیدر کرار ہیں”
- ” علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہیں”
- ” علی سے صرف مومن پیار اور منافق بغض رکھ سکتا ہے” ۔
- ” علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں”
- ” علی دنیا و آخرت دونوں میں میرا بھائی ہے” وغیرہ
اسی طرح شیخین نہ صرف اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرتے تھے ، امام علی کے فیصلوں / مشوروں کو خلوص دل سے احترام کرتے تھے۔ حتی کہ خلیفہ سوئم حضرت عثمان غنی جو آپ کے پھوپی زاد بھائی بھی تھے ، جب باغی خلیفہ وقت کے خون کے درپے تھے تو مولا علی سے مشورہ لینے کیلے پہنچ گئے۔
مولانا مودودی رح کی شہرہ آفاق کتاب
” خلافت وملوکیت ” کے مطابق مولائے کائنات نے نہایت ہی باریک بینی، خلوص اور حق گوئی سے تمام حالات کا جائیزہ خلیفہ وقت کے سامنے پیش کر دیا، ان امور کی نشاندھی کی جو وجہ شورش بنیں۔ بقول مولانا مودودی خلیفہ نے مولا علی کے مشورے پر عمل کیا۔ حضرت علی نے خلیفہ وقت کے کہنے پر باہر سے آئے ہوئے افراد سے بات کی اور انھیں واپس جانے پر آمادہ بھی کردیا تھا۔ صبح واپس گئے تھے یا جانے والے ہی تھے، امن کے دشمنوں نے چھپ کر وار کردیا / درمیان میں پھوٹ ڈالا۔ مزکورہ کتاب میں پورا واقع موجود ہے بشمول ان کا نام جو صلح کو ناکام بنانے کا سبب بنے ۔ ( یہاں ان کا زکر کرنا ضروری نہیں )
اسی طرح مولائے کائنات کا اپنے دونوں شہزادوں ( حسنین کریمیں ) کو خلیفہ وقت کے پہرے پر بیٹھانا ، جنگ جمل کے بعد امالمومنیں حضرت عائشہ صدیقہ کو نہایت احترام و عزت کے ساتھ مدینہ رخصت کرنا اس بات کا ثبوت ہے ، انتہائی مشکل و ناپسندیدہ حالات میں بھی مسلمان صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں ، باہمی اختلافات کا احترام کرتے ہیں، باہمی دوریوں کو قربت میں بدل دیتے ہیں۔
اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اللہ و نبی کے احکامات پر عمل کرنے ،اہلبیت اطہار و خلفائے راشدین کی سیرت ، ان کے باہمی رواداری، ایک دوسرے کی رائے و نظریات کا احترام کرنا اور برداشت کے رویے کی تقلید و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔
جہان قرآن منفی و زہر آلود اختلافات و فرقہ پرستی کی سخت الفاظ میں ممانعت کرتا ہے وہاں ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ گروہوں / قبیلوں کا وجود میں آنا خود اللہ کے آفاقی منصوبے کا حصہ ہے، تاکہ اللہ جان سکے ،کون ہے جو اللہ کی مانتا ہے، اس سے محبت اور تقوی اختیار کئے ہوئے ہیں؟ اور کون ہے جو نافرمانداری کا ارتکاب کرکے دائمی عزاب کا مستحق قرار پاتے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :-
” اے لوگوں! ہم نے تمھیں مرد و عورت سے پیدا کیا ہے، تمھیں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں اسلیے تقسیم فرمایا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تم میں سے سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو متقی و پرہیز ہو ۔ بیشک اللہ خوب جاننے والا اور خوب سننے والا ہے” ( الحجرات : 13)